حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، سید فیصل رضوی صاحب نے " محرم الحرام کی مناسبت سے عاشوراء اور عزاداری کا مقصد" کے عنوان پر ایک تحریر لکھی ہے۔ جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے:
ابتدائیہ
اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہمیں محرم کا مزید ایک مہینہ نصیب ہوا اور عزاداری کرنے کی توفیق عنایت کی گئی۔ ایام عزاء کی آمد کے ساتھ ہی روئے زمین پر بسنے والے تمام محبان اہل بیت مجالس و محافل منعقد کرنے میں مصروف ہوجاتے ہیں تاکہ میدان کربلا میں حضرت امام الحسین (علیہ السلام) اور آپ کے اہل خانہ کی دی گئی عظیم قربانی کی یاد تازہ کر سکیں۔امام علی الرضا (علیہ السلام) نے نہایت دردمندی کے ساتھ واقعہ کربلا کی اہمیت کو اجاگر کیا جب آپ نے فرمایا:”اگر تم نے کسی چیز پر گریہ کرنا ہے تو الحسین ابن علی ابن ابی طالب پر گریہ کرو کیونکہ انہیں ذبح کیا گیا جس طرح گوسفند کو ذبح کیا جاتا ہے اور ان کے ساتھ ان کے اہل بیت میں سے اٹھارہ افراد کو قتل کیا گیا جن کی مثل روئے زمین پر موجود نہیں۔“ [۱] چنانچہ عزاداری میں مشغول ہوتے وقت ہمیں عزاداری کے عظیم مقاصد کو فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ بیشک کوئی عمل اس وقت کارگر نہیں رہتا جب اس کے معمول اپنے مقصد کو ہی بھلا بیٹھیں۔ چنانچہ ہم یہاں اما م عالی مقام کی بے مثال قربانی اور عزاداری کی رسومات کے مقاصد کی تفتیش کریں گے۔بارگاہ الٰہی میں مؤدبانہ گزارش ہے کہ وہ ہمیں اہل بیت رسول کی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے اور سید الشہداء کی اسلامی تحریک کو اما م زمانہ (علیہ السلام) کے ہاتھوں زندگی بخش دے۔
قیام حسینی کا مقصد
مجالس میں ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کا یہ ارشاد کئی مرتبہ سنا ہے: ”بیشک الحسین کا قتل مومنین کے قلوب میں ایک ایسی حرارت ہے جو کبھی نہیں بجھے گی۔“[۲] بیشک آنحضرت کے اس قول کی صداقت ہم آج بھی محسوس کر سکتے ہیں کہ اسلامی سال کے شروع ہوتے ہی مسلمانان عالم سبط پیغمبر کی عظیم قربانی کی یاد منانا شروع کر دیتے ہیں۔ کربلا کی کہانی زبان زد عام ہے اور بالخصوص سرزمین پاک و ہند میں بسنے والا بچہ بچہ یہ واقعہ سینکروں مرتبہ سن چکا ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ یزید لعین نے امام سے بیعت کا مطالبہ کیا لیکن فرزند فاطمہ نے طاغوت کی اطاعت کا دم بھرنے سے انکار کر دیا۔ امام اپنے اہل خانہ کے سنگ مکہ تشریف لے گئے جہاں کوفیوں نے آپ کو اپنے شہر آنے کی دعوت دی۔ امام نے کوفہ کا رخ کیا لیکن اموی حکومت کے حکم پر کربلا میں روک لیے گئے اور ابن زیاد نے کوفہ میں دہشت کی ایسی فضا قائم کر دی کہ بلانے والوں نے ہی پشت پھیر لی۔نواسہ رسول نے باطل کے سامنے سر جھکانے سے انکار کر دیا اور وہی ہوا جس کی پیشگوئی فرشتہ جبرائیل کر چکے تھے:”آپ کی امت آپ کے بعد الحسین کو قتل کر دے گی۔“[۳] البتہ یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ امام الحسین (علیہ السلام) کے قیام کا مقصد کیا تھا۔ امام عالی مقام اگر کوفہ پہنچ جاتے تو پھر تاریخ کا رخ کس طرف مڑ جاتا؟
قیام حسینی کے مقاصد کے متعلق مختلف نظریات پیش کیے جاتے ہیں جن کی تفصیل آپ شیخ محمد ری شہری (مرحوم) کی مشہور زمانہ کتاب ”صحیح من مقتل سید الشہداء واصحابہ“ میں ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ہمارے متقدمین مثلاً شیخ مفید اورسید مرتضیٰ علم الہدیٰ اس بات کے قائل تھے کہ امام الحسین (علیہ السلام) روئے زمین پراسلامی نظام قائم کرنا چاہتے تھے۔ لیکن ظاہر سی بات ہے کہ اسلامی نظام کاقیام معاشرے میں توحید و سنت کی راہ ہموار کیے بغیر ممکن نہیں۔ چنانچہ امام عالی مقام نے اپنے دور میں جاری بدعات کے خلاف اعلان جہاد کیا اور یزید کی اسلام مخالف حکومت پر تنقید کی۔معلوم ہونا چاہئے کہ موالیوں کی قلت نے ہمیشہ ائمہ معصومین علیہم السلام کو تقیہ کرنے پر مجبور کیاہے۔ امام جعفر صادق (علیہ السلام) کا ہی بیان دیکھ لیں جس میں آپ فرماتے ہیں: ”اگر میرے پاس بکریوں کے اس ریوڑ کی تعداد جتنے شیعہ بھی ہوتے تو میرے لیے بیٹھنا درست نہ ہوتا۔“ [۴] چونکہ امام الحسین (علیہ السلام)کو کافی تعداد میں مددگار میسر آ گئے تھے چنانچہ آپ نے باطل کے خلاف جہاد کا ارادہ فرمایا۔قیام حسینی کا مقصدتھا اللہ کی زمین پر اللہ کے نظام کا نفاذ اور احیائے دین محمدی کی کاوش!
البتہ قیام حسینی کو محض سیاسی مقاصد میں محدود کر دینا حقیقت سے پردہ پوشی کرنے کے مترادف ہوگا کیونکہ آپ اپنے وقت میں حجت الٰہی تھے اور ائمہ معصومین کے ہر فیصلے کے پیچھے سینکڑوں حکمتیں پنہاں ہوتی ہیں۔ بعض نواصب نے اپنی کم علمی کی بناء پر یہ دعویٰ کیا کہ امام عالی مقام (معاذ اللہ) دنیاوی مقاصد کی خاطر مدینہ سے نکلے تھے۔ حالانکہ امام عالی مقام کے اپنے خطبات اس امر کی طرف نشاندہی کر رہے ہیں کہ آپ کے قیام کا مقصد امت مصطفی کی اصلاح، سنت محمد ی کی سربلندی اور شہادت کا حصول تھا۔
اپنے بھائی محمد ابن حنفیہ کے نام ایک مشہور خط میں امام نے وضاحت کی: ”میں اپنے نانا محمد (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کی امت کی اصلاح کی خاطر نکلا ہو۔ میں چاہتا ہوں کہ نیکیوں کا حکم دوں، برائیوں سے روکوں، اور اپنے نانا محمد (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) اور اپنے والد علی ابن ابی طالب کی سیرت پر چلوں۔“[۵] بلکہ امام عالی مقام نے یزید ی افواج کے روبرو بنی امیہ کی حکومت کی اسلام مخالف حرکتوں کو بے نقاب کیا۔ ایک ظالم کے خلاف جہاد کرنا شرعاً واجب ہے۔ چنانچہ جب لوازمات میسر آ جائیں تو باطل کے خلاف خروج اور اسلامی نظام کی خاطر جدوجہد واجب ہو جاتی ہے۔ امام کا یہ خطبہ ملاحظہ کریں: ”جو شخص کسی ایسے ستم گر بادشاہ کو دیکھے جو حرام الٰہی کو حلا ل قرار دیتا ہے، عہد الٰہی کو توڑتا ہے، سیرت پیغمبر کی مخالفت کرتا ہے، اور لوگوں کے درمیان گناہ و نافرمانی والے کام سر انجام دیتا ہے لیکن وہ شخص اپنے قول و فعل سے ان حالات کو تبدیل نہ کرے تو اللہ اس بات کا حق رکھتا ہے کہ اس شخص کو جہنم میں جھونک دے۔[۶] ان لوگوں نے شیطان کی اطاعت کو لازم جان لیا ہے اور اللہ کی اطاعت کو ترک کر چکے ہیں۔ یہ روئے زمین پر فساد برپا کرتے ہیں، اسلامی حدود کو پامال کرتے ہیں، شراب نوشی کرتے ہیں اورفقراء و مساکین کے مال پر ناحق قبضہ جماتے ہیں۔ میں اس بات کا سب سے زیادہ حق رکھتا ہوں کہ دین خدا کی نصرت کی خاطر قیام کروں، اس کی شریعت کو عزت بخشوں اور اس کی راہ میں جہاد کروں تاکہ کلمہ الٰہی ہی بلند رہے۔“[۷] چنانچہ ان خطبات سے امام عالی مقام کے مقاصد واضح ہو جاتے ہیں اور ہمیں معلوم ہوجاتا ہے کہ آپ کا جہاد ظلم و بربریت کے خلاف تھا۔
تمام ائمہ معصومین کی کوشش رہی ہے کہ سنت کے ہاتھ مضبوط کیے جائیں اور بدعت کے پیر کاٹے جائیں۔ چنانچہ امام الحسین (علیہ السلام) بھی اپنے ایک خط میں فرماتے ہیں: ”بیشک سنت مردہ کر دی گئی ہے اور بیشک بدعت زندہ ہو چکی ہے۔ میری بات سنو اور میرے امر کی اطاعت کرو۔ پس تم ہدایت کے راستے پر پہنچ جاؤ گے“۔[۸] کوفیوں کے نام اپنے ایک خط میں امام عالی مقام رقم طراز ہیں: ”بیشک امام تو فقط وہ شخص ہے جو کتاب پر عمل کرے، انصاف کا دامن تھامے، حق کی پابندی کرے اور خود کو اللہ کی ذات کے حوالے کر دے۔“[۹] چنانچہ قیام حسینی کا مقصد اپنی ذات کی خاطر اقتدار حاصل کرنانہیں تھا بلکہ اللہ کے دین کوزمین پر نافذ کر ناتھا تاکہ مسلمان اپنی زندگی کتاب و سنت کے مطابق گزاریں اور معاشرے میں عدل و انصاف کا دور دور ہ ہو جائے۔
امام عالی مقام پہلے ہی فرما چکے تھے کہ وہ موت کو سعادت سمجھتے ہیں اور ظالموں کے ساتھ رہن سہن آپ کو شدید ناپسند ہے۔[۱۰] اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کو جو خبر دی تھی وہ امام عالی مقام کومعلوم تھی اور آپ اچھی طرح جانتے تھے کہ اس سفر کے دوران آپ کو شہید کر دیا جائے گا اور آپ اسلامی نظام لانے سے قبل دشمن کی سازشوں کا شکار ہو جائیں گے۔ چنانچہ اپنے برادر محمد ابن حنفیہ کو ایک خط میں آپ نے واضح الفاظ میں فرما دیا: ”جو مجھ سے ملحق ہوا وہ شہید ہو جائے گا اور جو مجھ سے ملحق نہیں ہوا وہ فتح سے محروم رہے گا۔[۱۱] عاشوراء کی صبح ہی آپ نے اپنے صحابہ کو خبردار کر دیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے کربلا والوں کے نصیب میں شہادت لکھ دی ہے۔[۱۲] ہم مزید پڑھتے ہیں کہ امام نے اپنے اصحاب کے مجمع میں اعلان کر دیا: ”لا ارانی الا مقتولا۔“[۱۳] چنانچہ امام عالی مقام کی سب سے بڑی قربانی ہی یہ تھی کہ اللہ کے دین کو بچانے کی خاطر آپ نے خود کو اور اپنے اہل خانہ کو قربان کر دیا۔آپ جانتے تھے کہ سفر کربلا کا اختتام ذ بح عظیم پر ہوگا لیکن جس طرح ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ کی رضامندی کی خاطر اپنے فرزند کے حلق پر چھر ی خوشی سے چلا دی، ابراہیم کے جانشین الحسین (علیہ السلام) نے پروردگار کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کیا اور اپنی جان کا نذرانہ بخوشی پیش کر دیا۔ اسلام کی بقا و سلامتی کے لیے اپنی جان داؤ پر لگادینا سیرت حسینی ہے اور اس سیرت حسینی کی پیروی آج سب مسلمانوں پر واجب ہے۔جان جاتی ہے تو جائے لیکن اللہ کے دین پر آنچ نہ آئے! چنانچہ یہی عزاداری کا مقصد ہے جس پرہم آگے بات کریں گے۔
عزاداری کی شرعی حیثیت
عزاداری کے مقاصد معلوم کرنے سے قبل ہمیں عزاداری کی شرعی حیثیت پر گفتگو کرنی چاہئے۔ برادران اہل سنت کی طر ف سے اکثر یہ اعتراض اٹھایا جاتا ہے کہ عزاداری کرنے کا حکم شیعوں کو کس نے دیا۔ اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ ہمیں ہمارے ائمہ معصومین نے امام الحسین (علیہ السلام) کی اس عظیم قربانی کی یاد منانے کا حکم دیا اور ان ہی شخصیات کی تعلیما ت کے مطابق ہم آج بھی محرم میں شہید کربلا پر گریہ کرتے ہیں۔ عزاداری کرنا محض ہمارا کلچر ہی نہیں بلکہ تعلیمات اہل بیت کا لازمی جزو ہے۔ عزاداری ایک قسم کی عبادت ہے اور ہر قسم کی عبادت ائمہ معصومین کی تعلیمات کے مطابق ہی ادا کی جانی چاہئے۔
چنانچہ امام علی الرضا (علیہ السلام) فرماتے ہیں: ”جس نے ہمارے مصائب بیان کیے اور ہم پر ڈھائے گئے مظالم پر رویا، وہ بروز قیامت ہمارے ساتھ ہمارے درجے میں ہوگا۔جس نے ہمارے مصائب بیان کیے پس رویا اور رلایا، اس کی آنکھیں اس دن نہیں روئیں گی جب آنکھیں گریہ کناں ہوں گی۔ جو ایک ایسی مجلس میں بیٹھا جس میں ہمارے امر کو زندہ کیا جاتا ہو، اس کا دل اس دن نہیں مرے گا جب دل مردہ ہو جائیں گے۔“[۱۴] اس ہی طرح امام موسیٰ کاظم (علیہ السلام) کے متعلق معتبر روایات میں وارد ہوا ہے کہ آپ یکم محرم سے دس محرم تک غمگین رہتے، ہرگز نہ مسکراتے اور حزن شدید میں مبتلا ہوجاتے۔عاشوراء کے دن آپ آہ و بکاء فرماتے اور کہتے: ”یہ وہ دن ہے جس میں الحسین (صلوا ت اللہ علیہ) کو قتل کیا گیا تھا۔“ [۱۵] آ ئمہ معصومین نے ہمیں عاشوراء کے دن آہ و بکاء کرنے کا حکم دیا ہے اورتاکید کی ہے کہ دس محرم کو شیعہ اپنی ضروریات کی خاطر کوشش ترک کردیں [۱۶] تاکہ وہ آسانی کے ساتھ عزادار ی میں مصروف رہ سکیں۔ چنانچہ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ عزاداری کی بنیاد ائمہ اہل بیت نے رکھی تھی اور اس عمل کو عبادت کا درجہ ان ہی شخصیات کی تعلیمات کی روشنی میں دیا جاتا ہے۔ معلوم ہوا کہ عزاداری ایک قسم کی عبادت ہے اور عبادت کا اصل لطف اس کے مقصد سے واقفیت کے ساتھ ہی آتا ہے۔
عزاداری کا مقصد کیا ہے؟
قیام حسینی کے مقاصد سے واقفیت حاصل کرنے کے بعد آپ خود ہی اس نتیجہ پر پہنچ سکتے ہیں کہ شیعوں کے لیے عزاداری کا مقصد کیا ہونا چاہئے۔ عزاداری کا مقصد ہے کتاب و سنت سے محبت کرنا اور اسلام کی سربلندی کی خاطر جدوجہد کرنا۔ افسوس کہ آجکل لوگ عزاداری کو محض شیعوں کا کلچر سمجھ کر اس میں مصروف رہتے ہیں اور عزادار ی کے حقیقی مقاصد کو فراموش کر دیتے ہیں۔ عزاداری شیعوں کی تربیت کا نام ہے جس میں ہمیں ائمہ معصومین کی محبت سکھائی جاتی ہے۔ ائمہ معصومین سے ہم محبت کیوں کرتے ہیں؟اس سوال کا جواب ہمیں صحابی امام ابوامیہ یوسف ابن ثابت نے دیا جب انہوں نے امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے فرمایا: ”ہم آپ کو دنیا کے لیے محبوب نہیں رکھتے...محض اللہ کی خوشنودی اور دار آخرت کی خاطر اور اس مقصد سے کہ ہم میں سے کوئی شخص اپنے دین کی اصلاح کر سکے۔“[۱۷] چنانچہ مجالس حسینی میں شرکت کرنے کا مقصدہی یہ ہے کہ آپ اپنے دین کی اصلاح کریں، اسلام کے نزدیک ہو جائیں اور اپنی زندگی سے اسلام مخالف چیزوں کا خاتمہ کر دیں۔ یاد رکھیں کہ تفکر کے بغیر ہر عبادت بیکار ہے جس طرح امام علی رضا (علیہ السلام) فرماتے ہیں: ”نماز روزوں کی کثرت عبادت نہیں بلکہ عبادت تو فقط اللہ کے امر میں تفکر ہے۔“ [۱۸] چنانچہ عزاداری سے ہمیں فیض اس وقت ہی پہنچے گا جب ہم مجلس سے اٹھنے کے بعد نماز کی پابندی کریں، قرآن پر غور کریں، سیرت معصومین پر عمل کریں اور خود کو سچا مسلمان بنا لیں۔ عزاداری کا مقصد انسانیت کی اصلاح کرنا ہے اور انسانیت کی اصلاح کا راز اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے میں پوشیدہ ہے۔
چنانچہ میرے نزدیک عزاداری کے مقاصد کو ان امور میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
اول: امام الحسین(علیہ السلام) کی یاد کو تازہ رکھنا۔ چنانچہ کسی روایت کے مطابق امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے ایک مرتبہ پانی نوش فرمایا تو آپ کی داڑھی آنسوؤں سے گیلی ہو گئی اور آپ نے امام الحسین (علیہ السلام) کے قاتلوں پر لعنت کی۔[۱۹]
دوم: امام الحسین (علیہ السلام) کی فضیلت کی طرف لوگوں کی توجہ دلانا۔ امام عالی مقام کی عظمت کا اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کی قبر مبارک کی پاک طینت سے مٹی بنا کر تسبیح کرنابھی باعث ثواب ہے اور امام زمانہ (علیہ السلام) کا فتویٰ اس بارے میں موجود ہے۔[۲۰]
سوم: عزاداروں کی بخشش و شفاعت کا سامان پیدا کرنا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امام عالی مقام کی شہادت منانے والوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے اجر عظیم کا اعلان کیا ہے۔ ائمہ معصومین کی تعلیمات کے مطابق امام الحسین (علیہ السلام) کی مصیبت پر آنسو بہانے والے کے گناہ بخش دیے جاتے ہیں پھر چاہے وہ گناہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں۔[۲۱]
چہارم:میدان کربلا کو اسلامی انقلاب کا مرکز قرار دینا۔ چنانچہ میدان کربلا میں جاکر امام الحسین (علیہ السلام) کی زیارت کرنا ائمہ معصومین کی تعلیمات کے عین مطابق ہے۔ اس زیارت کی فضیلت میں کئی معتبر روایات ہماری کتابوں میں موجود ہیں۔ امام عالی مقام کی زیارت کے ثواب میں شک کرنا ہی فضول ہے۔ ایک جگہ ہمیں امام موسیٰ کاظم (علیہ السلام) کا بیان ملتا ہے جس کے مطابق:”جس نے الحسین کے حق کو پہچانتے ہوئے ان کی قبر کی زیارت کی اللہ اس کے گزشتہ و آئندہ کے گنا ہ معاف کر دے گا۔[۲۲]
پنجم: انقلاب امام زمانہ کے لیے راہ ہموار کرنا اور لوگوں کو اس انقلاب کے لیے تیار کرنا۔ معلوم ہوناچاہئے کہ قیام حسینی قائم آل محمد (علیہ السلام) کی تحریک کا پیش خیمہ ہے کیونکہ جو مشن تیسرے نے شروع کیا تھا ان شاء اللہ تعالیٰ (عزوجل) بارہواں اس مشن کو مکمل کر دے گا۔ امام مہدی (علیہ السلام) کے متعلق روایات میں آیا ہے کہ آپ ظہور کرنے کے بعد امام الحسین (علیہ السلام) کے قاتلوں کی اولاد کو قتل کریں گے کیونکہ یہ لوگ اپنے آباؤ و اجداد کے فعل پر راضی تھے۔ [۲۳] پس معلوم ہوا کہ یہ معرکہ کل بھی جاری تھا اور آج بھی جاری ہے؛ جب تک زمانے میں یزید کے چاہنے والے باقی رہیں گے حسینیوں کا باقی رہنا بھی ضروری ہے۔
ایک بہتر عزادار کیونکر بنا جائے؟
قیام حسینی اور تحریک عزاداری کے مقاصد سے بہرہ مند ہونے کے بعد اب ہم اس سوال کی طرف آتے ہیں جس کا تذکرہ عموماً نہیں کیا جاتا۔ ہم بہتر عزادار کیسے بن سکتے ہیں؟ مجالس حسینی سے ہمیں کیا سبق حاصل کرنا چاہئے؟ امام عالی مقام کی یاد منانا ہمیں کیسے ایک اچھا مسلمان بناتا ہے؟ یاد رکھنا چاہئے کہ ائمہ معصومین کی ولایت و مودت کا مقصد اپنے دین کی اصلاح کرنا ہے چنانچہ تشیع کا فائدہ اس ہی وقت ہے جب ہم تعلیمات اہل بیت سے مستفیض ہوں اور اہل بیت سے منسوب روایات پر عمل پیرا ہو جائیں۔ امام الحسین (علیہ السلام) کے قیام کا جو مقصد ہمیں سمجھ میں آیا اسے ہم تین حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں:
اول:سنت کو زندہ کرنا اور بدعت کی مخالفت کرنا۔
دوم:ظلم کے خلاف عدل کی شمشیر لے کر جہاد کرنا۔
سوم:اسلام کی سلامتی کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنا۔
چنانچہ شیعوں پر واجب ہے کہ عزاداری کی محافل و مجالس میں شرکت کرتے وقت ان تین امور کو یاد رکھیں۔یہ نکتہ کبھی فراموش نہیں کریں کہ عزاداری ایک قسم کی عبادت ہے اور عبادت میں اپنی طرف سے کوئی چیز داخل کرنا بدعت ہے۔ امام الحسین (علیہ السلام) کی پوری تحریک سنت پیغمبر کے احیاء کی خاطر تھی اور امیرالمومنین حضرت علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) تو پہلے ہی فرما چکے ہیں:”جس کسی نے بھی کوئی بدعت جاری کی اس کی وجہ سے ایک سنت کو ترک کر دیا۔“[۲۴] چنانچہ عزاداروں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں اور اپنی زندگی سے بدعات کا خاتمہ کریں۔ اس ہی طرح عزاداری ہمیں ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے اور وقت کے یزیدوں کو للکارنے کا پیغام دیتی ہے۔ایک بہتر عزادار وہ شخص ہے جو برائیوں کو دیکھ کر انہیں اپنے ہاتھ سے روکے، زبان سے برا کہے یا کم از کم دل میں ضرور غلط جانے۔ تیسرے یہ کہ عزاداران حسین کو دین اسلام کی سلامتی اپنی جان سے زیادہ عزیزہونی چاہئے۔
کیا آج ہم عزاداری صحیح طریقے سے کر رہے ہیں؟ کیا ہمارے ذاکرین منبروں سے تعلیمات اہل بیت بطریق معتبر بیان کرتے ہیں؟ کیا مجالس حسینی میں شرکت کرنے والے افراد تحریک حسینی سے بخوبی واقف ہیں؟ ہم یہاں ایک اچھا عزادا ر بننے کے متعلق کچھ اہم ہدایات درج کرتے ہیں۔ امید ہے کہ یہ ہدایات آپ کی عزاداری کو بارگاہ الٰہی میں مقبول قرار دیں گی۔
اول:مجالس میں شرکت کے ساتھ نماز کی بھی پابندی کریں۔
دوم:طہارت اور پاکیزگی کی حالت میں مجالس حسینی میں قدم رکھیں۔
سوم: ائمہ اہل بیت کے فضائل و مصائب سے اس بات کا اندازہ لگائیں کہ چہاردہ معصومین نے ہم تک اللہ کا دین پہنچانے کے لیے کس قدر تکالیف برداشت کیں۔ چنانچہ اس دین کو محفوظ رکھیں اور اس پر عمل کریں۔
چہارم: بانیان مجلس عزاداری کے نام پر سیاست سے پرہیز کریں۔ اپنی باہمی رقابتوں کو مجالس حسینی سے دو ررکھیں۔مجلس کے انعقاد کا مقصد دین کی تبلیغ کرنا ہے۔ چنانچہ مجالس کو اپنے مفادا ت کے حصول کا ذریعہ مت بنائیں۔
پنجم: مجالس میں ریاکاری سے پرہیز کریں اور یہ مت سوچیں کہ ماتم کرتے وقت لوگ آپ کو دیکھ رہے ہیں۔ عزاداری کا مقصد اللہ کی خوشنودی کا حصول ہے۔یاد رکھیں کہ اللہ رب العزت کی ذات آپ کو دیکھ رہی ہے اور وہ ہی آپ کو آپ کے ماتم و گریہ کا ثواب عطا کرے گا۔
ششم: مجالس میں ”واہ، واہ“ کا جو کلچر مشہور ہو چکا ہے اس کی وجہ سے امام الحسین (علیہ السلام) کے ہدف کو تکلیف پہنچتی ہے۔ منبر پر بیٹھنے والا خطیب کہیں لوگوں کی ”واہ،واہ“ کو ہی مجلس کی کامیابی کا معیار نہ سمجھ لے۔ کامیاب مجلس تو وہ ہے جس میں اہل بیت کا ذکر بطریق معتبر ہو، تعلیمات معصومین کا پرچار ہو اور لوگوں کے دین کی اصلاح ہو۔
ہفتم: تحریک حسینی کا مقصد توحید کی سربلند ی ہے اور عزاداروں کو ایسے ہی خطباء و ذاکرین کی مجالس میں شرکت کرنا چاہئے جو لوگوں کو اللہ کی وحدانیت کی طرف بلاتے ہیں۔ مجالس حسینی میں غلو سے پرہیز کرنا چاہئے اور ائمہ اہل بیت کے مناقب بیان کرتے وقت ان سے ربوبیت کو منسوب نہیں کرنا چاہئے۔ امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: ”پس بیشک غلاۃ اللہ کی بدترین مخلوق ہیں۔ اللہ کو گھٹاتے ہیں اور بندگان خدا کے لیے ربوبیت کا دعویٰ کرتے ہیں۔“[۲۵] چنانچہ غلاۃ کو منبر رسول پر مت بٹھائیں۔
ہشتم: فضائل و مصائب اہل بیت بیان کرتے وقت محض معتبر روایات بیان کریں۔ یاد رکھیں کہ ہم شیعوں کے مصادر حدیث میں موجود ہر روایت معتبر نہیں۔واقعہ کربلا بیان کرتے وقت من گھڑت روایات بیان کرنے سے پرہیز کرنا چاہئے۔ شروع کے دور کی تاریخی کتب سے واقعات کربلا بیان کریں۔من گھڑت روایات کے متعلق امام علی رضا (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ دشمنان اہل بیت نے! تین قسم کی جھوٹی احادیث وضع کی ہیں: غلو والی احادیث جن میں اہل بیت کی طرف ربوبیت کو منسوب کیا گیا ہے؛ تقصیر والی احادیث جن میں ائمہ کے منصب کو گھٹایا گیا ہے؛ اور دشمنان اہل بیت کی مذمت پر تصریحی احادیث۔[۲۶]
نہم: تحریک حسینی کا مقصد تھا محمد (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کے دین کو باقی رکھنا۔ چنانچہ مجالس حسینی میں لوگوں کو اسلام کی تعلیمات سے بہرہ مند کیا جائے۔ عوام الناس بھی اپنے ذاکرین سے گزارش کریں کہ وہ مجالس حسینی میں دینی امور کا تذکرہ کریں۔ فضائل و مصائب کے ساتھ اہل بیت کی بیان کردہ تعلیمات کا بھی ذکر ہو جو ہماری کتب حدیث میں موجود ہیں۔ شیخ آصف محسنی (مرحوم) کی معجم الاحادیث معتبرہ اور اس جیسی دیگر کتابوں سے صحیح السند شیعہ احادیث لوگوں تک پہنچائی جائیں تاکہ عزادار اپنی زندگی معصومین کے ارشادات کے مطابق ڈھال سکیں۔ اہل بیت سے محبت کرنے کا مطلب ہے اہل بیت کی روایات کو سننا، سمجھنا اور دوسروں تک پہنچانا۔
دہم:آخر میں اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ وطن عزیزپاکستا ن اس وقت انتہاپسندی کی آفت میں مبتلا ہے۔ چنانچہ مجالس حسینی میں اختلافی موضوعات بیان کرنے سے پرہیز کیا جائے۔ بزرگان اہل سنت کو برابھلا کہنا ویسے بھی علمائے شیعہ کی تعلیمات کے خلاف ہے اور اس قسم کی باتوں سے معاشرے میں انتشار پھیلتا ہے۔ چنانچہ ہمارے ذاکر حضرات دوسروں کے مذہبی جذبا ت مجروح کرنے سے پرہیز کریں اور مجالس حسینی کو چہاردہ معصومین کے ذکر سے رونق بخشیں۔ مجالس میں وہ باتیں کریں جو سب کی اصلاح کا باعث ہوں اور اہل سنت کو مسلک شیعہ کی خوبصورتی سے آگاہ کریں۔ یاد رکھیں کہ امام الحسین (علیہ السلام) کا مقصد پوری امت کی اصلاح تھا۔
نتیجہ
مضمون کا اختتام میں آیت اللہ محمد حسین نجفی معروف بہ ڈھکو (اعلیٰ اللہ مقامہ) کی کتاب”سعاد ت الدارین فی مقتل الحسین“ میں موجود عزاداری کے مقاصد کے بیان پر کروں گا۔ ڈھکو صاحب کی یہ کتاب ذاکرین کے لیے ایک نادر تحفہ ہے جس میں واقعہ کربلا نہایت نفیس اور معتبر انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ اس کتاب کے شروع میں وہ لکھتے ہیں کہ مجالس حسینی دراصل تعلیمات معصومین کے حصول کا ذریعہ ہیں اورایسے مدارس دینی کی حیثیت رکھتی ہیں جہاں لوگوں کو نیکیوں کا حکم دیا جاتا ہے، برائیوں سے روکا جاتا ہے، حق کی نصر ت کرنے کا جذبہ بیدار کیا جاتا ہے، مصائب کے بیان سے لوگوں کو دین پر قائم رہنے کی تاکید کی جاتی ہے،دین اسلام کے معارف و حقائق بیان ہوتے ہیں اور اہل بیت کے لیے محبت و الفت کے جذبات تازہ رکھے جاتے ہیں۔چنانچہ اپنی مجالس کی اصلاح کریں، عزاداری کے مقاصد کو سمجھیں اور تحریک حسینی کے ثمرات لوگوں تک پہنچائیں۔ مجالس کو بزم مشاعرہ یا جلسہ موسیقی نہ بنائیں، رسومات عزاداری کو نمود و نمائش سے دور رکھیں اوراہداف قیام حسینی کو تکلیف نہ دیں۔ اللہ ہم سب کو اہل بیت کی محبت پر قائم رکھے!
حوالہ جات
اس مضمون میں بیان کردہ احادیث کے حوالہ جات کچھ اس طرح ہیں:
[۱] الامالی [شیخ صدوق]، مجلس نمبر ۲۷، حدیث نمبر ۲۰۲/۵۔
[۲] مستدرک الوسائل [محدث نوری]، جلد نمبر ۱۰، صفحہ نمبر ۳۱۸۔
[۳] کامل الزیارات [ابن قولویہ]، صفحہ نمبر ۱۳۰تا۱۳۱، حدیث نمبر ۷۴۱/۶۔
[۴] الکافی [شیخ کلینی]، جلد نمبر ۲، صفحہ نمبر ۲۴۲تا۲۴۳، حدیث نمبر ۴۔
[۵] الفتوح [ابن اعثم]، جلد نمبر ۵، صفحہ نمبر ۲۱۔
[۶] الکامل فی التاریخ [ابن اثیر]، جلد نمبر ۲، صفحہ نمبر ۱۶۵۔
[۷] شرح احقاق الحق [السید مرعشی]، جلد نمبر ۲۷، صفحہ نمبر ۲۰۱۔
[۸] تاریخ طبری [محمد ابن جریر]، جلد نمبر ۴، صفحہ نمبر ۲۶۶۔
[۹] تاریخ طبری [محمد ابن جریر]، جلد نمبر۴، صفحہ نمبر ۲۶۲۔
[۱۰] تحف العقول [ابن شعبہ الحرانی]، صفحہ نمبر ۲۴۵۔
[۱۱] معتبر من بحار الانوار [آصف محسنی]، جلد نمبر ۲، صفحہ نمبر ۳۶۔
[۱۲] ایضا۔
[۱۳] معتبر من بحار الانوار [آصف محسنی]، جلد نمبر ۲، صفحہ نمبر۳۷۔
[۱۴] معتبر من بحار الانوار [آصف محسنی]، جلد نمبر ۲، صفحہ نمبر ۳۱تا۳۲۔
[۱۵] معتبر من بحار الانوار [آصف محسنی]، جلد نمبر ۲، صفحہ نمبر ۳۲۔
[۱۶] معتبر من بحار الانوار [آصف محسنی]، جلد نمبر ۲، صفحہ نمبر۳۲تا۳۳۔
[۱۷] صحیح الکافی [باقر بہبودی]، جلد نمبر ۳، صفحہ نمبر ۳۸۵۔
[۱۸] معجم الاحادیث معتبرہ [آصف محسنی]، جلد نمبر ۱، صفحہ نمبر ۶۲۔
[۱۹] الامالی [شیخ صدوق]، مجلس نمبر ۲۹، حدیث نمبر۲۲۳/۷۔
[۲۰] تہذیب الاحکام [شیخ طوسی]، جلد نمبر ۶، صفحہ نمبر ۷۵تا۷۶۔
[۲۱] معتبر من بحار الانوار [آصف محسنی]، جلد نمبر ۲، صفحہ نمبر۳۳۔
[۲۲] الامالی [شیخ صدوق]، مجلس نمبر ۲۹، حدیث نمبر۲۲۵/۹۔
[۲۳] معتبر من بحار الانوار [آصف محسنی]، جلد نمبر ۲، صفحہ نمبر۴۰۔
[۲۴] معجم الاحادیث معتبرہ [آصف محسنی]، جلد نمبر ۱، صفحہ نمبر ۶۸۔
[۲۵] الامالی [شیخ طوسی]، مجلس نمبر ۳۳، حدیث نمبر ۱۳۴۹/۲۱۔
[۲۶] عیون اخبا رالرضا [شیخ صدوق]، جلد نمبر ۲، صفحہ نمبر ۲۷۲۔